کہہ دی ہے بنا سوچے یہی بات بہت ہے
سیاہ خوں سیاہ دل سیاہ ظاہر و باطن
مجھ سے بھلی تو صاحبو یہ رات بہت ہے
ہے قلب پہ قابض مقدر کی سیاست
کہنے کو تو وقت کی بہتات بہت ہے
کر لیتا ہوں گفتگو تیرے وجود نہاں سے
دو گھڑی کی وہ یکطرفہ ملاقات بہت ہے
کیا غم کہ ان کے غم نے لی جان ہماری
ملی ہے غم کو ہم سے نجات بہت ہے
مانا کہ تیرے عشق کے قابل نہیں ہوں میں
دامن میں تیرے ہجر کی خیرات بہت ہے
کاش کہ تو آئے تجھے دیکھوں تو مرجاؤں
گزاری ہے جیسے جتنی یہ حیات بہت ہے
سینے میں سمائی جلتے دشت کی وسعتیں
آنکھوں میں بنا ابر کی برسات بہت ہے
(شاعر ارسلان لطیف)
Comments
Post a Comment