"حسرت ان غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے"
بچپن سے لے کر اب تک یہ محاورہ سنتی آرہی ہوں لیکن خدا گواہ ہے کہ نہیں جانتی تھی کہ یہ محاورہ اپنے اندر اتنا درد رکھتا ہے.. اور یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اُس کا اطلاق انسانی زندگی پر بھی ہو سکتا ہے.. سوچا کرتی تھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کوئی پھول کِھلے بھی نہ اور مرجھا جائے.. ؟؟آہ...!! کچے ذہن اور کچی باتیں..!! ہوش سنبھالتے ہی جہاں بہت سی چیزوں کے بارے میں بہت کچھ پتہ چلا اسی طرح یہ ضربُ المثل مجھ پر واضح ہوتی گئ آج کل نا جابے کیوں یہ محاورہ میرے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے.. اور اُس محاورے کے ذہن میں آتے ہی قصور کی زینب اور مردان کی عاصمہ اور اُن دونوں جیسی بہت سی بچیاں یاد آنے لگتی ہیں.. ضربُ المثل لکھنے والے نے نہ جانے کیا سوچ کر لکھی لیکن میرے ذہن میں وہ پھول جیسی بچیاں آجاتیں ہیں جو واقعی کسی غنچے سے کم نہیں تھیں اُن کو کھلنے سے پہلے ہی بری طرح کچل دیا گیا مسل دیا گیا..! اور کوئی کچھ نہ کر سکا.. کوئی کچھ کرتا بھی کیسے..؟وہ بچیاں ہماری تھوڑی تھیں وہ تو اپنے ماں باپ کی بچیاں تھیں.. ماں باپ جانیں اور وہ جانیں ہمیں کیا...!! لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ زینب سے پہلےبھی کتنی معصوم کلیوں کو کچلا گیا لیکن کوئی اُن کے حق میں آواز کیوں نہیں اٹھا پایا..!! صد شکر کے زینب کا معاملہ کھلا اور اسکے ساتھ اور بھی بہت معصوم بچیوں کے بارے میں آواز اٹھائی گئ..! کیا اُن بچیوں کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ زندگی کو جی سکیں کیا اُن کے ماں باپ نے اُن کو صرف اس لئیے بڑا کیا تھا کہ وہ معاشرے میں پلنے والے درندوں کی ہوس کا نشانہ بنیں..!!
عوام کے شدید اصرار پر قاتل کو آخر کار پکڑ لیا گیا.. تو سوال یہ پیدا ہوا کے کیا واقعی عمران قاتل ہے یا بس اُسکو قاتل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے.. ااگر عمران واقعی قاتل ہے تو جو سی سی ٹی وی میں دکھایا گیا وہ کون تھا..؟کیا عوام کو بس لالی پوپ دیا جا ریا ہے.. ؟بات یہ ہے کے اب عوام کو بے وقوف بنانا آسان کام نہیں رہا..! یہی وجہ یے کے جب عمران کو قاتل بتایا گیا تو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر لوگوں نے سوال اٹھایا کے کیا عمران وقعی قاتل ہے یا عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے..؟
زینب قتل کیس نے اُس وقت ایک سنسنی خیز موڑ اختیار کر لیا جب ڈاکٹر شاہد مسعود نے ہیبت ناک انکشافات کئیے کے عمران تو بس ایک کارندہ ہے بین الاقوامی نیٹ ورک کا..! اصل ذمہ دار تو کوئی اور لوگ ہیں... ڈاکٹر صاحب کا انکشافات کرنا تھا کہ پاکستانی سیاست میں ہل چل مچ گئی.. اور دکھ کی بات یہ ہے کہ صحافیوں اور نام ور صحافیوں نے بھی اِسکو تنقید کا نشانہ بنایا.. اور سیاست دانوں کی طرف سے ڈھڑا ڈھڑ بیانات جاری کئیے گئیے کے یہ سراسر ایک جھوٹا دعوی ہے.. اتنی جلدی تو شاید زینب اور باقی معصوم بچیوں کے بےہیمانہ قتل پر تعزیتی بیانات بھی جاری نہیں کئیے گئیے جتنی جلدی ڈاکٹر صاحب کے بیانات کو جھوٹا دعوی کہہ کر اِس بات کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اُن انکشافات کے بعد اُن تمام باتوں کے بارے میں تحقیقات کی جاتیں الٹا سب ایسے بِدکے کہ جیسے ڈاکٹر صاحب نے کوئی انہونی بات کر دی ہو حالانکہ کوئی ایسی عجب بات نہیں ہمارے ہاں رواج ہے کہ سیاست دان صرف سیاست ہی نہیں کرتے اُن کے اور بہت سے کاروبار ہوتے ہیں..
کل ایک ویڈیو کلپ نظر سے گزرا کے جس میں رانا ثناءاللہ صاحب زینب کے والد کو خود اپنے منہ سے کہہ رہے تھے کے پریس کانفرنس میں بس قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنا ہےباقی سب باتیں بعد میں طے کر لی جائیں گی اور شہباز شریف صاحب نے زینب کے والد کا مائیک بھی آف کر دیا.. اور تو اور اِسی پریس کانفرنس میں قہقے بھی لگائے جا ریے تھے.. یہ ہے ہماری مردہ دلی کا عالم...!!!
عام کا مطالبہ ہے کے اگر تو عمران واقعی قاتل ہے تو اُسکو سرعام پھانسی دی جائے اور ایسا کوئی انہونا اور عجب مطالبہ بھی نہیں.. لیکن بدقسمتی سے اِس پر عمل کرنے سے پہلے سو بار سوچا جا رہا ہے.. اور اگر اِس پر عمل درامد ہو جائے تو اگلی بار کوئی بھی ذی روح ایسا بے ہودہ اور گھناؤنا کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا ضرور..!!
ہر کلی کا حق ہے کے وہ کِھلے اور اپنی خوشبو سے پورے باغ کو معطر کر دے..
ہماری بزدلی کا عالم یہ ہے کے چاہے کل بھوشن ہو یا عمران یا کوئی اور.. اور اپنے منہ سے جرم کا اقرار بھی کر لے.. ہم اُسکا بال بیکا کرنے کی جرت نہیں رکھتے..!! ہمیں مجرم کو سزا دینے سو بار اُسکے نقصانات اور فوائد کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے.. اور جہاں انصاف سزا اور جزا کا یہ عالم ہو وہاں آئے روز کئی کلیاں کچلی جاتی رہیں گیں اور ہم بس یہی کہتے رہے گے... "حسرت اُن غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے....!!"میرا ماننا ہے کے ڈاکٹر صاحب کے انکشافات پر تنقید کرنے کے بجائےان کی تحقیقات ہونی چاہئیے.. اور اگر یہ سب سچ ہوا تو قابلِ تحسین ہے یہ شخص کے جس نے اکیلے اتنے بڑے نیٹ ورک کے خلاف آواز اٹھا ئی.. لیکن افسوس اپنوں نے تنقید شروع کر دی.. اِس موقعے پر یہ شیر بار بار ذہن میں گردش کر ریا ہے..
دیکھا جو تیر کھا کر کمان کی طرف
اپنے ہی دوستوں سےملاقات ہو گئ ......خداکرے میرے وطن میں بہن اور بیٹی کی عزت تار تار کرنے والوں کے لیئے یہ زمین تنگ
پڑ جائے ...!! خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو
بچپن سے لے کر اب تک یہ محاورہ سنتی آرہی ہوں لیکن خدا گواہ ہے کہ نہیں جانتی تھی کہ یہ محاورہ اپنے اندر اتنا درد رکھتا ہے.. اور یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ اُس کا اطلاق انسانی زندگی پر بھی ہو سکتا ہے.. سوچا کرتی تھی کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کوئی پھول کِھلے بھی نہ اور مرجھا جائے.. ؟؟آہ...!! کچے ذہن اور کچی باتیں..!! ہوش سنبھالتے ہی جہاں بہت سی چیزوں کے بارے میں بہت کچھ پتہ چلا اسی طرح یہ ضربُ المثل مجھ پر واضح ہوتی گئ آج کل نا جابے کیوں یہ محاورہ میرے ذہن میں گردش کرتا رہتا ہے.. اور اُس محاورے کے ذہن میں آتے ہی قصور کی زینب اور مردان کی عاصمہ اور اُن دونوں جیسی بہت سی بچیاں یاد آنے لگتی ہیں.. ضربُ المثل لکھنے والے نے نہ جانے کیا سوچ کر لکھی لیکن میرے ذہن میں وہ پھول جیسی بچیاں آجاتیں ہیں جو واقعی کسی غنچے سے کم نہیں تھیں اُن کو کھلنے سے پہلے ہی بری طرح کچل دیا گیا مسل دیا گیا..! اور کوئی کچھ نہ کر سکا.. کوئی کچھ کرتا بھی کیسے..؟وہ بچیاں ہماری تھوڑی تھیں وہ تو اپنے ماں باپ کی بچیاں تھیں.. ماں باپ جانیں اور وہ جانیں ہمیں کیا...!! لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ زینب سے پہلےبھی کتنی معصوم کلیوں کو کچلا گیا لیکن کوئی اُن کے حق میں آواز کیوں نہیں اٹھا پایا..!! صد شکر کے زینب کا معاملہ کھلا اور اسکے ساتھ اور بھی بہت معصوم بچیوں کے بارے میں آواز اٹھائی گئ..! کیا اُن بچیوں کو کوئی حق نہیں تھا کہ وہ زندگی کو جی سکیں کیا اُن کے ماں باپ نے اُن کو صرف اس لئیے بڑا کیا تھا کہ وہ معاشرے میں پلنے والے درندوں کی ہوس کا نشانہ بنیں..!!
عوام کے شدید اصرار پر قاتل کو آخر کار پکڑ لیا گیا.. تو سوال یہ پیدا ہوا کے کیا واقعی عمران قاتل ہے یا بس اُسکو قاتل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے.. ااگر عمران واقعی قاتل ہے تو جو سی سی ٹی وی میں دکھایا گیا وہ کون تھا..؟کیا عوام کو بس لالی پوپ دیا جا ریا ہے.. ؟بات یہ ہے کے اب عوام کو بے وقوف بنانا آسان کام نہیں رہا..! یہی وجہ یے کے جب عمران کو قاتل بتایا گیا تو سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر لوگوں نے سوال اٹھایا کے کیا عمران وقعی قاتل ہے یا عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے..؟
زینب قتل کیس نے اُس وقت ایک سنسنی خیز موڑ اختیار کر لیا جب ڈاکٹر شاہد مسعود نے ہیبت ناک انکشافات کئیے کے عمران تو بس ایک کارندہ ہے بین الاقوامی نیٹ ورک کا..! اصل ذمہ دار تو کوئی اور لوگ ہیں... ڈاکٹر صاحب کا انکشافات کرنا تھا کہ پاکستانی سیاست میں ہل چل مچ گئی.. اور دکھ کی بات یہ ہے کہ صحافیوں اور نام ور صحافیوں نے بھی اِسکو تنقید کا نشانہ بنایا.. اور سیاست دانوں کی طرف سے ڈھڑا ڈھڑ بیانات جاری کئیے گئیے کے یہ سراسر ایک جھوٹا دعوی ہے.. اتنی جلدی تو شاید زینب اور باقی معصوم بچیوں کے بےہیمانہ قتل پر تعزیتی بیانات بھی جاری نہیں کئیے گئیے جتنی جلدی ڈاکٹر صاحب کے بیانات کو جھوٹا دعوی کہہ کر اِس بات کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ اُن انکشافات کے بعد اُن تمام باتوں کے بارے میں تحقیقات کی جاتیں الٹا سب ایسے بِدکے کہ جیسے ڈاکٹر صاحب نے کوئی انہونی بات کر دی ہو حالانکہ کوئی ایسی عجب بات نہیں ہمارے ہاں رواج ہے کہ سیاست دان صرف سیاست ہی نہیں کرتے اُن کے اور بہت سے کاروبار ہوتے ہیں..
کل ایک ویڈیو کلپ نظر سے گزرا کے جس میں رانا ثناءاللہ صاحب زینب کے والد کو خود اپنے منہ سے کہہ رہے تھے کے پریس کانفرنس میں بس قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنا ہےباقی سب باتیں بعد میں طے کر لی جائیں گی اور شہباز شریف صاحب نے زینب کے والد کا مائیک بھی آف کر دیا.. اور تو اور اِسی پریس کانفرنس میں قہقے بھی لگائے جا ریے تھے.. یہ ہے ہماری مردہ دلی کا عالم...!!!
عام کا مطالبہ ہے کے اگر تو عمران واقعی قاتل ہے تو اُسکو سرعام پھانسی دی جائے اور ایسا کوئی انہونا اور عجب مطالبہ بھی نہیں.. لیکن بدقسمتی سے اِس پر عمل کرنے سے پہلے سو بار سوچا جا رہا ہے.. اور اگر اِس پر عمل درامد ہو جائے تو اگلی بار کوئی بھی ذی روح ایسا بے ہودہ اور گھناؤنا کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے گا ضرور..!!
ہر کلی کا حق ہے کے وہ کِھلے اور اپنی خوشبو سے پورے باغ کو معطر کر دے..
ہماری بزدلی کا عالم یہ ہے کے چاہے کل بھوشن ہو یا عمران یا کوئی اور.. اور اپنے منہ سے جرم کا اقرار بھی کر لے.. ہم اُسکا بال بیکا کرنے کی جرت نہیں رکھتے..!! ہمیں مجرم کو سزا دینے سو بار اُسکے نقصانات اور فوائد کے بارے میں سوچنا پڑتا ہے.. اور جہاں انصاف سزا اور جزا کا یہ عالم ہو وہاں آئے روز کئی کلیاں کچلی جاتی رہیں گیں اور ہم بس یہی کہتے رہے گے... "حسرت اُن غنچوں پر جو بن کھلے مرجھا گئے....!!"میرا ماننا ہے کے ڈاکٹر صاحب کے انکشافات پر تنقید کرنے کے بجائےان کی تحقیقات ہونی چاہئیے.. اور اگر یہ سب سچ ہوا تو قابلِ تحسین ہے یہ شخص کے جس نے اکیلے اتنے بڑے نیٹ ورک کے خلاف آواز اٹھا ئی.. لیکن افسوس اپنوں نے تنقید شروع کر دی.. اِس موقعے پر یہ شیر بار بار ذہن میں گردش کر ریا ہے..
دیکھا جو تیر کھا کر کمان کی طرف
اپنے ہی دوستوں سےملاقات ہو گئ ......خداکرے میرے وطن میں بہن اور بیٹی کی عزت تار تار کرنے والوں کے لیئے یہ زمین تنگ
پڑ جائے ...!! خدا ہم سب کا حامی و ناصر ہو
سیده وجہیہ بخاری
Comments
Post a Comment